تہران، 17مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)ایران میں پرسوں جمعہ کو ہونے والے صدارتی انتخابات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ تہران کے سابق میئر محمد باقر قالیباف کی شدت پسند صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی کے حق میں دست برداری اور اسحاق جہانگیری کی صدر حسن روحانی کی حمایت کے اعلان کے بعد اب مقابلہ صرف دو شخصیات کے درمیان رہ گیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے کیونکہ بنیاد پرست حلقے ابراہیم رئیسی کی طرف داری جب کہ اصلاح پسند اور اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ابراہیم رئیسی کو شدت پسند سرکاری اشرافیہ کے ساتھ ساتھ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔تاہم دو دیگر امیدوار مصطفیٰ میر سلیم اور مصطفیٰ ھاشمی طبا بھی ابھی تک میدان میں موجود ہیں تاہم ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عین ممکن ہے کہ آخری اوقات میں بھی وہ بھی کسی ایک امیدوار کے حق میں دست بردار ہوجائیں گے۔
ایران میں صدارتی انتخابی دنگل کے موجودہ منظر نامے سے لگتا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای ’ابراہیم رئیسی‘ اور صدر حسین روحانی کی ’کراس فائرنگ‘ کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔ابراہیم رئیسی کو سپریم لیڈر، جوڈیشل کونسل اور خبر گان کونسل کی حمایت حاصل ہے۔ رئیسی ایران میں سنہ 1988ء میں سیاسی قیدیوں کے بے رحمانہ قتل عام کے لیے قائم کردہ ’ڈیتھ سکواڈ‘ کے رکن رہ چکے ہیں اور انہیں سیاسی قیدیوں کے جلادوں کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ شدت پسندانہ نعروں کے ساتھ میدان عمل میں ہیں۔دوسری جانب ان کا مقابلہ حسن روحانی کے ساتھ ہے۔ روحانی ایک اعتدال پسند اور اصلاح پسند لیڈر ہیں۔ ان کے پہلے دور صدارت میں امریکا اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنا متنازع ایٹمی پروگرام محدود کرنے کے بدلے تہران کو عالمی تنہائی سے نکالا اور کسی حد تک معاشی پابندیوں سے بھی آزاد کرایا۔
ابراہیم رئیسی نے اپنے انتخابی نعروں میں ’عزت اور روزگار‘ کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم کرنے اور معیشت کی بہتری کے لیے بدعنوانی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہو کرایران پرعاید تمام عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کرائیں گے۔ ایران میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے دروازے کھولیں گے تاکہ ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔منگل کے روز تہران میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ابراہیم رئیسی نے روحانی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ حسن روحانی ملک کے بحرانوں کو ملکی سرحدوں سے باہر حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ تمام مسائل کا حل ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہے۔
اصلاح پسندوں کو توقع ہے کہ حسن روحانی دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ایرانی قوم کے پاس حسن روحانی کے دوبارہ انتخاب کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر ابراہیم رئیسی صدر منتخب ہوتے ہیں تو ایران سے اٹھائی گئی اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کی جاسکتی ہیں۔جہاں تک سپریم لیڈر کی جانب سے ابراہیم رئیسی کی حمایت کا تعلق ہے تو وہ کوئی راز نہیں۔ سپریم لیڈر خود علیل اور عمر رسیدہ ہیں۔ وہ ڈوبتا سورج ہیں۔ وہ اپنی موجودگی میں کسی ایسے شخص کو ریاستی نظم ونسق سپرد کرنے کے خواہاں ہیں جو ولایت فقیہ کے اسرارو رموز سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ایرانی انقلاب کے پرتشدد اصولوں پر عمل درآمد کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔ یہ کام صرف ابراہیم رئیسی ہی کرسکتے ہیں جو سپریم لیڈر کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے ان کے راز دان بھی ہیں۔